ایک بار شہرمیں سالانہ کھیلوں کا مقابلہ ہورہاتھا دوردورسےکھلاڑی اس مقابلے میں شرکت کیلئے آئےجب پانچ کلومیٹرکی دوڑ کا دن آیاتوکئی درجن لوگوں نے اس میں شرکت کی دوڑ قریب کے ایک گاؤں سے شروع ہوکراسٹیڈیم پر ختم ہونی تھی راستہ میں ایک لکڑی کاپل بھی پڑتاتھا
سب تیاری کے بعد صبح سات بجے ریس شروع ہوئی بائیس سال کا ایک خوبصورت نوجوان آگے نکل رہا تھاپل تک پہونچتےپہونچتےاس نے سارے دوسرے لوگوں کے پیچھے چھوڑ دیا اب پل پر وہ سب سے آگے جارہاتھا اسکی نظر اسٹیڈیم کے جھنڈے پر بھی جو بس ایک کلو مٹر باقی رہ گیاتھا لیکن یہ کیا؟اچانک پل کا ایک تختہ ٹوٹا اور وہ نیچے گرتے ہی دریا کی موجوں غرق ہوگیا لوگ دریا کی طرف دوڑ پڑےسارا کھیل خراب ہوگیا غوطہ خوروںنے ایک گھنٹہ بعد اسکی لاش کنارے پر لا کر رکھ دی لوگ رورہے تھے سینہ پیٹ رہے تھے ایک بوڑھے آدمی نے کہا اسکا وقت آگیا تھا اسکو کوئی آگے پیچھے نہیں کرسکتا دراصل یہ دنیا ایک ریس کورس ہے جگہ جگہ پل ہیں جن میں بہت سے لکڑی کے تختے لگے ہوئے ہیں ہر شخص پیدا ہوتے ہی اس میدان میں دوڑناشروع کردیتا ہے دور سے اسے امیدوں کی جھنڈے نظر آنے لگتے ہیں وہ بچپن سے جوانی جوانی سے بڑھاتے میں داخل ہوجاتا ہے سانس پھول جاتا ہے لیکن دوڑتا رہتا ہے دوڑتے دوڑتے کسی پل کا تختہ ٹوٹ جاتا ہے اور اچانک وہ اپنی قبر کے گڑھے میں گرجاتاھے لوگ روتے ہیں سینہ کوبی کرتے ہیں لیکن یہ حادثہ اچانک عمل میں نہیں آتا ہر شخص کی قبر پیدائش کے وقت ہی تیار کرکے چھپا دی جاتی ہے دراصل ہمارا پورا ریس کورس قبروں پر ہی بنا ہوا ہے لوگ دوڑتے رہتے ہیں اور اپنی قبر تک پہنچ جاتے ہیں اچانک پل کا تختہ ٹوٹ جاتا ہے تمناؤں کے جھنڈے دور چمکتے ہوئے رہ جاتے ہیں اور لوگ دوسری دنیا میں پہنچ جاتے ہیں قابل مبارک ہیں وہ لوگ جو حقیقت کو سمجھتے ہیں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں اور اپنے وقت کو قیمتی بناتے ہیں کسی نے سچ کہا ہے اگر تم صبح کر لو تو شام کی توقع مت کرو اور اگر شام کر لو تو صبح کا اعتماد نہ کرو نہ جانے کون سا قدم قبر کے تختہ پر پڑ جائے!
سب تیاری کے بعد صبح سات بجے ریس شروع ہوئی بائیس سال کا ایک خوبصورت نوجوان آگے نکل رہا تھاپل تک پہونچتےپہونچتےاس نے سارے دوسرے لوگوں کے پیچھے چھوڑ دیا اب پل پر وہ سب سے آگے جارہاتھا اسکی نظر اسٹیڈیم کے جھنڈے پر بھی جو بس ایک کلو مٹر باقی رہ گیاتھا لیکن یہ کیا؟اچانک پل کا ایک تختہ ٹوٹا اور وہ نیچے گرتے ہی دریا کی موجوں غرق ہوگیا لوگ دریا کی طرف دوڑ پڑےسارا کھیل خراب ہوگیا غوطہ خوروںنے ایک گھنٹہ بعد اسکی لاش کنارے پر لا کر رکھ دی لوگ رورہے تھے سینہ پیٹ رہے تھے ایک بوڑھے آدمی نے کہا اسکا وقت آگیا تھا اسکو کوئی آگے پیچھے نہیں کرسکتا دراصل یہ دنیا ایک ریس کورس ہے جگہ جگہ پل ہیں جن میں بہت سے لکڑی کے تختے لگے ہوئے ہیں ہر شخص پیدا ہوتے ہی اس میدان میں دوڑناشروع کردیتا ہے دور سے اسے امیدوں کی جھنڈے نظر آنے لگتے ہیں وہ بچپن سے جوانی جوانی سے بڑھاتے میں داخل ہوجاتا ہے سانس پھول جاتا ہے لیکن دوڑتا رہتا ہے دوڑتے دوڑتے کسی پل کا تختہ ٹوٹ جاتا ہے اور اچانک وہ اپنی قبر کے گڑھے میں گرجاتاھے لوگ روتے ہیں سینہ کوبی کرتے ہیں لیکن یہ حادثہ اچانک عمل میں نہیں آتا ہر شخص کی قبر پیدائش کے وقت ہی تیار کرکے چھپا دی جاتی ہے دراصل ہمارا پورا ریس کورس قبروں پر ہی بنا ہوا ہے لوگ دوڑتے رہتے ہیں اور اپنی قبر تک پہنچ جاتے ہیں اچانک پل کا تختہ ٹوٹ جاتا ہے تمناؤں کے جھنڈے دور چمکتے ہوئے رہ جاتے ہیں اور لوگ دوسری دنیا میں پہنچ جاتے ہیں قابل مبارک ہیں وہ لوگ جو حقیقت کو سمجھتے ہیں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں اور اپنے وقت کو قیمتی بناتے ہیں کسی نے سچ کہا ہے اگر تم صبح کر لو تو شام کی توقع مت کرو اور اگر شام کر لو تو صبح کا اعتماد نہ کرو نہ جانے کون سا قدم قبر کے تختہ پر پڑ جائے!
Comments
Post a Comment