’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگ دریا کی موجوں کی مانند بے قرار ہوں گے تو وہ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے: آپ اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کیجئے، وہ فرمائیں گے: یہ میرا مقام نہیں، تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ
کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں
۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو جائیں گے جس پر وہ فرمائیں گے: یہ (شفاعتِ کبری) میرا منصب نہیں تم حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں۔ پس وہ حضرت موسیٰں کی خدمت میں جائیں گے تو وہ فرمائیں گے: میں اس (شفاعتِ کبریٰ کے) لائق نہیں تم حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ روح اللہ اور اُس کا کلمہ ہیں۔ پس وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو وہ فرمائیں گے: میں اِس شفاعت (کبریٰ) کے قابل نہیں تم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس جاؤ۔ پس لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں کہوں گا: ہاں! اس شفاعت کے لیے تو میں ہی مخصوص ہوں۔ پھر میں اپنے ربّ سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت دی جائے گی اور مجھے ایسے حمدیہ کلمات الہام کئے جائیں گے جن کے ساتھ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کروں گا وہ کلمات اب مجھے مستحضر نہیں ہیں۔ پس میں اِن محامد سے اﷲ تعالیٰ کی تعریف و توصیف کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گ۔ سو اﷲ تعالیٰ مجھ سے فرمائے گا: اے محمد! اپنا سرِ (انور) اُٹھائیں، اپنی بات کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: میرے ربّ! میری اُمت، میری اُمت، پس فرمایا جائے گا: جائیں اور جہنم سے ہر ایسے اُمتی کو نکال لیں جس کے دل میں جَو کے برابر بھی ایمان ہو۔ پس میں جا کر یہی کروں گا۔ پھر واپس آ کر اُن محامد کے ساتھ اُس کی حمد و ثنا بیان کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گ۔ پس اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! اپنا سرِ (انور) اُٹھائیے اور کہیے!آپ کو سنا جائے گا، مانگیے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے ربّ! میری اُمت، میری اُمت! پس فرمایا جائے گا: جائیں اور جہنم سے اُسے بھی نکال لیں جس کے دل میں ذرّے کے برابر یا رائی کے برابر بھی ایمان ہو۔ پس میں جا کر ایسے ہی کروں گا۔ پھر واپس آ کر اُنہی محامد کے ساتھ اُس کی حمد و ثنا بیان کروں گا اور پھر اُس کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا: اے محمد! اپنا سرِ (انور) اُٹھائیے اور کہیے، آپ کو سنا جائے گا، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے پیارے رب! میری اُمت، میری اُمت، پس اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: جائیں اور اُسے بھی جہنم سے نکال لیں جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی بہت ہی کم بہت ہی کم بہت ہی کم ایمان ہو۔ پس میں خود جاؤں گا اور جا کر ایسا ہی کروں گ۔(حضرت حسن بصری نے اس میں اتنا اضافہ کیا کہ) حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں چوتھی دفعہ واپس لوٹوں گا اور اِسی طرح اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کروں گا پھر اُس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گ۔ پس اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اُٹھائیں اور کہیں آپ کو سنا جائے گا، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے پیارے رب ! مجھے اُن کی (شفاعت کرنے کی) اجازت بھی دیجئے جنہوں نے لَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ کہا ہے، پس وہ فرمائے گا: مجھے اپنی عزت و جلال اور عظمت و کبریائی کی قسم! میں اُنہیں ضرورجہنم سے نکالوں گا
کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں
۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو جائیں گے جس پر وہ فرمائیں گے: یہ (شفاعتِ کبری) میرا منصب نہیں تم حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں۔ پس وہ حضرت موسیٰں کی خدمت میں جائیں گے تو وہ فرمائیں گے: میں اس (شفاعتِ کبریٰ کے) لائق نہیں تم حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ روح اللہ اور اُس کا کلمہ ہیں۔ پس وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو وہ فرمائیں گے: میں اِس شفاعت (کبریٰ) کے قابل نہیں تم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس جاؤ۔ پس لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں کہوں گا: ہاں! اس شفاعت کے لیے تو میں ہی مخصوص ہوں۔ پھر میں اپنے ربّ سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت دی جائے گی اور مجھے ایسے حمدیہ کلمات الہام کئے جائیں گے جن کے ساتھ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کروں گا وہ کلمات اب مجھے مستحضر نہیں ہیں۔ پس میں اِن محامد سے اﷲ تعالیٰ کی تعریف و توصیف کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گ۔ سو اﷲ تعالیٰ مجھ سے فرمائے گا: اے محمد! اپنا سرِ (انور) اُٹھائیں، اپنی بات کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: میرے ربّ! میری اُمت، میری اُمت، پس فرمایا جائے گا: جائیں اور جہنم سے ہر ایسے اُمتی کو نکال لیں جس کے دل میں جَو کے برابر بھی ایمان ہو۔ پس میں جا کر یہی کروں گا۔ پھر واپس آ کر اُن محامد کے ساتھ اُس کی حمد و ثنا بیان کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گ۔ پس اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! اپنا سرِ (انور) اُٹھائیے اور کہیے!آپ کو سنا جائے گا، مانگیے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے ربّ! میری اُمت، میری اُمت! پس فرمایا جائے گا: جائیں اور جہنم سے اُسے بھی نکال لیں جس کے دل میں ذرّے کے برابر یا رائی کے برابر بھی ایمان ہو۔ پس میں جا کر ایسے ہی کروں گا۔ پھر واپس آ کر اُنہی محامد کے ساتھ اُس کی حمد و ثنا بیان کروں گا اور پھر اُس کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا: اے محمد! اپنا سرِ (انور) اُٹھائیے اور کہیے، آپ کو سنا جائے گا، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے پیارے رب! میری اُمت، میری اُمت، پس اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: جائیں اور اُسے بھی جہنم سے نکال لیں جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی بہت ہی کم بہت ہی کم بہت ہی کم ایمان ہو۔ پس میں خود جاؤں گا اور جا کر ایسا ہی کروں گ۔(حضرت حسن بصری نے اس میں اتنا اضافہ کیا کہ) حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں چوتھی دفعہ واپس لوٹوں گا اور اِسی طرح اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کروں گا پھر اُس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گ۔ پس اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اُٹھائیں اور کہیں آپ کو سنا جائے گا، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے پیارے رب ! مجھے اُن کی (شفاعت کرنے کی) اجازت بھی دیجئے جنہوں نے لَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ کہا ہے، پس وہ فرمائے گا: مجھے اپنی عزت و جلال اور عظمت و کبریائی کی قسم! میں اُنہیں ضرورجہنم سے نکالوں گا
Comments
Post a Comment